Friday, May 7, 2010

Words Dearest to Allah

تیمم کا بیان

" تیمم" ) تیمم٥ھ میں مشروع ہوا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:  فلم تجدوا ماء فتیمموا صعید اطیبا فامسحو ابوجو ھکم وایدیکم منہ " تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین(کی جنس) پر سے (مار کر) پھیر لیا کرو" ۔ (وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔ لغت میں تیمیم کے معنی 'قصد"  کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں تیمم سے مراد ہے پاک مٹی کا قصد کرنا یا اس چیز کا قصد کرنا جو مٹی کے قائم مقام ہو جیسے پتھر اور چونا وغیرہ اور طہارت کی نیت کے ساتھ اسے ہاتھ اور منہ پر ملنا۔
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تیمیم کے لیے دو ضربیں یا ایک ضرب ہے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام ابو یوسف، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ تیمم کے لیے دو ضربیں ہیں یعنی پاک مٹی یا اس کے قائم مقام مثلاً پاک چونے اور پتھر وغیرہ پر دو فعہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک ضرب تو منہ کے لیے ہے اور دوسری ضرب کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لیے۔ حضرت امام شافعی کا بھی مختار مسلک یہی ہے اور بعض حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
لیکن حضرت امام احمد بن حنبل کا مشہور مسلک اور حضرت امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ تیمیم ایک ہی ضرب ہے یعنی تیمم کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ہی مرتبہ پاک مٹی وغیرہ پر ہاتھ مار کر اسے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیر لے، حضرت امام اوزاعی، عطاء اور مکحول سے بھی یہی منقول ہے۔ دونوں فریقین کے مذہب و مسلک کی تائید میں احادیث منقول ہیں جو آگے انشاء  اللہ  آئیں گی اور جن کی حسب موقع فائدہ و توضیح بھی کی جائے گی۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ تیمیم کے کچھ احکام اور وہ صورتیں ذکر کر دی جائیں جن میں تیمیم جائز ہے تیمم حسب ذیل صورتوں میں جائز ہوتا ہے۔
(١) اتنا پانی جو وضو اور غسل کے لیے کافی ہو اپنے پاس موجود نہ ہو بلکہ ایک میل یا ایک میل سے زائد فاصلے پر ہو۔
(٢) پانی جو موجود تو ہو مگر کسی کی امانت ہو یا کسی سے غصب کیا ہوا ہو۔
(٣) پانی کے نرخ کا معمول سے زیادہ گراں ہو جانا۔
(٤) پانی کی قیمت کا موجود نہ ہونا خواہ پانی قرض مل سکتا ہو یا نہیں، قرض لینے کے صورت میں اس پر قادر ہو یا نہ ہو، ہاں اگر اپنی ملکیت میں مال ہو اور ایک مدت معینہ کے وعدے پر قرض مل سکتا ہو تو قرض لے لینا چاہئے۔
(٥) پانی کے استعمال سے کسی مرض کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو یا یہ خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کیا جائے گا تو صحت یابی میں دیر ہو گی۔
(٦) سردی اس قدر شدید ہو کہ پانی کے استعمال سے کسی عضو کے ضائع ہو جانے یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا خوف ہو اور گرم پانی ملنا ممکن نہ ہو۔
(٧) کسی دشمن یا درندے کا خوف ہو مثلاً پانی ایسی جگہ ہو جہاں درندے وغیرہ آتے ہوں یا موجود ہوں یا راستے میں چوروں کا خوف ہو، یا اپنے اوپر کسی کا قرض ہو، یا کسی سے عداوت اور یہ خیال ہو کہ اگر پانی لینے جاؤں گا تو قرض خواہ مجھ کو پکڑ لے گا، یا کسی قسم کی تکلیف دے گا، یا پانی کسی غنڈے اور فاسق کے پاس ہو اور  عورت کو اس کے حاصل کرنے میں اپنی بے حرمتی کا خوف ہو۔
(٨) پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے رکھا ہو کہ اسے وضو یا غسل میں خرچ کر دیا جائے تو اس ضرورت میں حرج ہو مثلاً آٹا گوندھنے یا گوشت وغیرہ پکانے کے لیے رکھا ہو، یا اپنی اس قدر ہو کہ اگر وضو غسل میں صرف کر دیا جائے تو پیاس کا خوف ہو خواہ اپنی پیاس کا یاکسی دوسرے کی پیاس کا، یا اپنے جانوروں کی پیاس کا ، بشر طیکہ کوئی ایسی تدبیر نہ ہو سکے کہ مستعمل پانی جانوروں کے کام آسکے۔
(٩) کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو کہ اسے کنوئیں میں ڈال کر تر کرے اور پھر اس سے نچوڑ کر طہارت حاصل کرے، یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کے لیے نہ ہو اور نہ مٹکا جھکا کر پانی لے سکتا ہو، نیز ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا ایسا آدمی نہ ہو جو پانی نکال کر دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے۔
(١٠) وضو یا غسل کرنے میں ایسی نماز کے چلے جانے کا خوف ہو جس کی قضا نہیں ہے جیسے عید ین یا جنازے کی نماز۔
(١١) پانی کا بھول جانا مثلاً کسی آدمی کے پاس پانی تو ہے مگر وہ اسے بھول گیا ہو اور اس کا خیال ہو کہ میرے پاس پانی نہیں ہے۔
تیمم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ درج ذیل ہے:
پہلے بسم  اللہ  پڑھ کر تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کسی ایسی مٹی پر جس کو نجاست نہ پہنچی ہو یا اس کی نجاست دھو کر زائل کر دی گئی ہو، ہتھیلیوں کی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملے اس کے بعد ہاتھوں کو اٹھا کر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر ملے اس طرح کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مار کر ملے پھر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے، داہنے ہاتھ کے انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی انگلیوں کو اور ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر انگلیوں تک کھنچا جائے، اسی طرح بائیں ہاتھ کا بھی مسح کرے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے اور ایک ہی تیمم دونوں کے لیے کافی ہے۔ اگر دونوں کی نیت کر لی جائے۔
تیمم کے کچھ احکام و مسائل یہ ہیں۔) یہ تمام مسائل عبدالشکور لکھنوی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ (
(١) تیمم کے وقت نیت کرنا فرض ہے اور نیت کی شکل یہ ہے کہ جس حدیث کے سبب سے تیمم کیا جائے اس سے طہارت کی نیت کی جائے یا جس چیز کے لیے تیمم کیا جائے اس کی نیت کی جائے مثلاً اگر نماز جنازہ کے لیے تیمم کیا جائے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لیے تیمم کیا جائے تو اس کی نیت کی جائے مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہوگی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے نہیں ہوسکتی۔
(٢) تیمم کرتے وقت اعضاء تیمم سے ایسی چیزوں کو دور کر دینا فرض ہے جس کی وجہ سے مٹی جسم تک نہ پہنچ سکے جیسے روغن یا چربی وغیرہ۔
(٣) تنگ انگوٹھی تنگ چھلوں اور چوڑیوں کو اتار ڈالنا واجب ہے۔
(٤) اگر کسی قرینے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو اس کی تلاش میں سو قدم تک خود جانا یا کسی کو بھیجنا واجب ہے۔
(٥) اگر کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی موجود ہو اور اس سے ملنے کی امید ہو تو اس سے طلب کرنا واجب ہے۔
(٦) اس ترتیب سے تیمم کرنا سنت ہے جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا ہے یعنی پہلے منہ کا مسح پھر دونوں ہاتھوں کا مسح۔
(٧) منہ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔
(٨) جس آدمی کوآخر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو تو اس کو نماز کے اخیر وقت تک پانی کا انتظام کرنا مستحب ہے مثلاً کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقن یا گمان غالب ہو کہ آخر وقت رسی اور ڈول مل جائیں گے۔ یا کوئی آدمی ریل پر سوار ہو اور یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ نماز کے آخر وقت ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے۔
(٩) تیمم نماز کے وقت کے تنگ ہو جانے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ شروع وقت میں واجب نہیں ہوتا۔
(١٠) نماز کا اس قدر وقت ملے کہ جس میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو تیمم واجب ہوتا ہے اور اگر وقت نہ ملے تو تیمم واجب نہیں۔
(١١) جن چیزوں کے لیے وضو فرض ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی فرض ہے۔ اور جن چیزوں کے لیے وضو واجب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی واجب ہے اور جن چیزوں کے لیے وضو سنت یا مستحب ان کے لیے وضو کا تیمم بھی سنت اور مستحب ہے، یہی حال غسل کا بھی ہے۔
(١٢) اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہو اور مسجد میں جانے کی اسے سخت ضرورت ہو تو اس پر تیمم کرنا واجب ہے۔
(١٣) جن عبادتوں کے لیے حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حدث اصغر (یعنی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) سے طہارت شرط نہیں ہے۔ جیسے سلام و سلام کا جواب وغیرہ ان کے لیے وضو و غسل دونوں کا تیمم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور جن عبادتوں میں صرف حدث اصغر سے طہارت شرط نہ ہو جیسے تلاوت قرآن مجید اور اذان وغیرہ ان کے لیے صرف وضو کا تیمم بغیر عذر ہو سکتا ہے۔
(١٤) اگر کسی کے پاس مشکوک پانی ہو جیسے گدھے کا استعمال کردہ پانی تو ایسی حالت میں پہلے اگر وضو کی ضرورت ہو تو وضو، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کیا جائے اس کے بعد تیمم کیا جائے۔
(١٥) اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ مثلاً کوئی آدمی جیل میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی آدمی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا۔
(١٦) ایک جگہ سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔
(١٧) جو آدمی پانی اور مٹی دونوں پر قادر نہ ہو خواہ پانی مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس نماز کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی آدمی ریل میں سوار ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے مگر نہ تو پانی موجود ہے کہ وہ وضو کرے اور نہ مٹی یا اس قسم کی کوئی دوسری چیز ہے جس سے وہ تیمم کر سکے، ادھر نماز کا وقت بھی ختم ہوا جا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔ اسی طرح کوئی آدمی جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وہ بے وضو اور بے تیمم نماز پڑھ لے گا مگر ان دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔

مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 493
5 - تیمم کا بیان : (9)
تیمم کا بیان

اذان کا بیان

مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 603               مکررات 0  
لغت میں اذان کے معنی " خبر دینا' ہیں اور اصطلاح شریعت میں " چند مخصوص الفاظ کے ساتھ اوقات مخصوصہ میں نماز کا وقت آنے کی خبر دینے"  کو اذان کہتے ہیں۔ اس تعریف سے وہ اذان خارج ہے جو نماز کے علاوہ دیگر امور کے لیے ہے مسنون کی گئی ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان کے کلمات اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جاتے ہیں اور اسی طرح اس آدمی کے کان میں اذان کہنا مستحب ہے جو کسی رنج میں مبتلا ہو یا اسے مرگی وغیرہ کا مرض ہو یا وہ غصے کی حالت میں ہو، یا جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور۔ چنانچہ حضرت دیلمی راوی ہیں کہ حضرت علی کرم  اللہ  وجہہ نے فرمایا کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب:  میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں لہٰذا تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان کہے جس سے تمہارا غم ختم ہو جاے گا۔ حضرت علی کرم  اللہ  وجہہ فرماتے تھے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد کے مطابق عمل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات صحیح ثابت ہوئی نیز اس روایت کو حضرت علی تک نقل کرنے والے ہر راوی نے کہا ہے کہ ہم نے اس طریقے کو آزمایا تو مجرب ثابت ہوا۔ ایسے ہی حضرت دیلمی حضرت علی کرم  اللہ  وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور تو اس کے کان میں اذان کہو
بہر حال۔ فرائض نماز کے لیے اذان کہنا سنت موکدہ ہے تاکہ لوگ نماز کے وقت مسجد میں جمع ہوئیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ اذان کی مشروعیت کے سلسلے میں مشہور اور صحیح یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت کی ابتداء عبد  اللہ  بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق کا خواب ہے جس کی تفصیل آئندہ احادیث میں آئے گی۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اذان کا خواب حضرت ابوبکر صدیق نے بھی دیکھا تھا۔ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ دس صحابہ کو خواب میں اذان کے کلمات کی تعلیم دی گئی تھی بلکہ کچھ حضرات نے تو کہا ہے کہ خواب دیکھنے والے چودہ صحابہ ہیں۔
بعض علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کے نتیجے میں ہوئی ہے جس کی طرف شب معراج میں ایک فرشتے نے رہنمائی کی تھی چنانچہ حضرت علی کرم  اللہ  وجہہ فرماتے ہیں کہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں جب عرش پر پہنچے اور سریردہ عزت تک جو کبریائی حق جل مجدہ کا محل خاص ہے پہچنے تو وہاں سے ایک فرشتہ نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ حضرت جبریل نے کہا کہ اس اللہ کی قسم ً جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تمام مخلوق سے زیادہ قریب ترین درگاہ عزت سے میں ہوں لیکن میں نے پیدائش سے لے کر آج تک اس وقت کے علاوہ اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے چنانچہ اس فرشتہ نے کہا "   اللہ  اکبر  اللہ  اکبر"  یعنی  اللہ  بہت بڑا ہے  اللہ  بہت بڑا ہے۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندہ نے سچ کہا انا اکبر انا اکبر (یعنی میں بہت بڑا ہوں میں بہت بڑا ہوں) اس کے بعد اس فرشتے نے اذان کے باقی کلمات ذکر کئے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے کلمات صحابہ کے خواب سے بھی بہت پہلے شب معراج میں سن چکے تھے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں محقق فیصلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات شب معراج میں سن تو لیے تھے لیکن ان کلمات کو نماز کے لیے اذان میں ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بغیر اذان کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ تشریف لائے اور یہاںصحابہسے مشورہ کیا چنانچہ بعض صحابہ نے خواب میں ان کلمات کو سنا اس کے بعد وحی بھی آگئی کہ جو کلمات آسمان پر سنے گئے تھے اب وہ زمین پر اذان کے لیے مسنون کر دیے جائیں۔ وا اللہ  اعلم۔